Mchoudhary

Add To collaction

تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری

قسط 24

.......................

"ش ش شام !! لڑ کھڑا تی آواز میں درد کی شدّت سے بہ مشکل اُسنے a پانے ہاتھ کو جنبش دی تھی ہاتھ وہی ٹھہر گیا تھا اس آواز کے لیے وُہ کتنا تڑپا تھا کتنا رویا تھا تین سال تین سال سے آخری الفاظ اُسکی سماعتوں سے ٹکرا کر اُسکی زندگی کے پل پل اذیت سے دو چار کرواتا تھا ..

آنکھوں سے بے اختیار آنسوں بہہ نکلے تھے ڈرتے ڈرتے اُسنے آنکھوں کی پتلیوں کو گھمایا یہ جاننے کے لئے کہ کہی اُسکا یہ صرف وہم نہ ہو کہیں یہ محض ایک خواب نہ ہو ...

بھیگی پلکیں گلابی آنکھیں فرفراتے لب جو کانپ رہے تھے گالوں پر بہتے آنسوں نہ میں ہلاتی گردن وُہ اتنی حسین لگی کہ ایک دم سے اُسکی ساری دنیا ہی حسین ہو گئی تھی.....

"ی یہ ک ک کیا ک کک کر رہے تھے آپ ؟ بہ مشکل بول۔پائی آنسووں کا گولا گلے میں اٹک گیا تھا اُسکی..

"مم میری جان کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں " اُسنے خود میں اسکو بھینچا تھا... پھر ایک دم جیری کی سانسیں اکھڑنے لگی وُہ اُسکی حالت کو دیکھ ایک دم گھبرا گیا .. سانسیں اکھڑنے کے باعث اُسکی آنکھوں سے آنسوں بہہ نے لگے تھے.. جیری نے سمعان کے ہاتھوں پر اپنی گرفت مضبوط کر دی تھی اور سانسیں اُسکی ہے بہت تیزی سے اکھڑنے لگی تھی ....

نرس جو مستقل جیری کی دیکھ بھال کے لئے وہاں رہتی تھی سمعان نے اسکو آواز دی 

" سسٹر سسٹر !!!! بھاگتی ہوئی نرس اندر آئی " جی جی سس سر!! وہ جلدی سے بولی جب اُسنے جیری کی اُکھڑتی سانسوں کے زیرِ اثر دیکھا تو اسنے ڈاکٹر عثمان کو کال ملا دی تھی ڈاکٹڑ عثمان۔ کے آنے تک اُس سے جو ہوا وُہ کیا تھا........ 

"ڈاکٹر عثمان ! میری بیوی ٹھیک تو ہے نہ؟ گھبراتی نظروں سے دیکھتے سمعان نے پوچھا تھا حلانکہ نظروں کا تعاقب دروازے کے پیچھے پڑے وجود پر تھا جو اُسکی نظروں سے پوشیدہ تھا لیکن دل کی نظریں تو جیسے وہی پر ٹھہری ہوئی تھی....

دس منٹ میں ہی ڈاکٹر عثمان وہاں پر موجود تھا اور اُسکا کچھ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد اُسکی دھڑکن سب دیکھنے کے بعد اب ڈاکٹڑ عثمان سمعان کے سامنے کھڑے تھے.....

Mr. Samaan Ahmed !! You know your wife well. She had been in this world for three whole years with an inanimate being. Getting out of a coma is rare. You are lucky to have another chance to spend time with your love...

یہ معجزے سے کم نہیں ہے آپکے لئے .. اُنہونے مسکرا کر سمعان سے کہا جبکہ نا سمجھی سے اُسنے عثمان کی طرف دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے...

"مطلب ؟؟ اُسنے پوچھا تھا...

"مطلب کہ یہ مسٹر سمعان احمد !! آپکی وائف اب بلکل مکمل طور پر خطرے سے باہر ہے ... ابھی میں نے اُنکو کچھ ٹیبلیٹس دی جنکے زیرِ اثر وُہ سو رہی ہے "ڈاکٹر عثمان نے سمعان سے کہا اور وہاں سے چلا گیا.....

وہ کمرے میں آیا تو اُسکی جان دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی تھی . "الحمدللہ !! بے اختیار اُسکے لبوں سے اللّٰہ کا شکر ادا ہوا اور وُہ اپنے حضور کے سجدہ ریزہ ہونے کے لیے وضو کرنے باتھرُوم کی طرف بڑھ گیا.. ہے شک ہر چیز کے میل جانے پر اُس پاک ذات ہم پر شکر ادا کرنا بنتا ہے کیونکہ اُسکی طرف سے ہر عطا کردہ چیز نعمت سے کم نہیں ہے.....

..........................💖💖💖💖💖

ایک عجیب سے نے چینی جو اسکو سکون نہیں لینے دے رہی تھی.. وُہ صوفے پر لیٹی چھت کو دیکھ رہی تھی.. پچھلے تین سالوں میں ماں کی بے رخی بھائی کی بے رخی اور سب سے بڑھ کر ایک ایسے شخص کی بے رخی جو اُسکا مزاجی خدا ہونے کے ساتھ ساتھ اُسکی محبّت بھی بن گیا تھا..

"کیا کروں ؟ میری زندگی اُس ایک غلطی نے عذاب بنا دی ہے کوئی بھی میری طرف ایک نگاہ دیکھنے کہ بھی راودار نہیں ہے." سوچتے سوچتے آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ کر تکیے میں جذب ہو گئی......

"کاش کاش آپی !!! مجھے ایک موقع دے دیں میری زندگی کو اس عذاب سے نکال دے آپکے جانے سے ایک نہیں کئی جانوں نے مسکرانا چھوڑ دیا ہے...

"مجھے آج پتہ چلا ہے کہ اپنوں کی بے رخی انسان کو جیتے جی مار دیتی ہے... 

"اللہ جی بلذّذ !! صرف اپنی اس گناہ گار بندی کو ایک موقع دی دیں.. روتے ہوئے اُسکی ہچکیاں بند گئی تھی.. وُہ اپنی آواز کو بہت مشکل۔ سے روکے ہوئے تھی پچھلے تین سالوں۔ سے وہ یہ ہے تو کر رہی تھی.....

وہ سویا نہیں تھا ایک طرف وُہ خود بھی عشق کی آگ میں جل رہا تھا تو وہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں خود کو جھونک رہی تھی...

وہ اسکو تو سزا دے ہی رہا تھا پر اُس سے زیادہ خود کو سزا دے رہا تھا.. محبوب کی آنکھ میں ایک آنسوؤں دیکھنا بہت بڑے عذاب کم نہیں ہے... بار بار کروٹیں بدلتے جب وہ تھک گیا تو اٹھ بیٹھا ...

اور ہلکے بنا آواز کیے ٹریس پر چلا آیا آسمان پر چاند دسمبر کی چیرتی ہوئے سرد ہوائیں اور وُہ بلیان ٹراوزر میں بغیر کسی چادر کے کھڑا آسمان لو دیکھ رہا تھا......

"میں محبّت کرتا ہوں آفی !! بہت زیادہ اتنا کی تمہاری تکلیف کو دیکھ پل پل میں مرتا ہوں.. لیکن جب میری بہن کی تکلیف تمہاری تکلیف پر غالب آتی ہے تو میری محبّت نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے .

"کیوں آفی کیوں؟ کیا تم اپنے باپ کی حرکتوں سے واقف نہیں تھی ؟ کیا تمہیں اتنی ہزاروں کی تعداد میں اُن لڑکیوں کا درد محسوس نہیں ہوا تھا؟ آنکھوں سے آنسوں نکل گئے تھے..... سوچنا کتنا ازیت ناک تھا وُہ اُسکا خدا جانتا تھا.....

کسی نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسکو پیچھے سے اپنی باہوں میں بھرا وُہ نازک سی جبکہ وہ وُہ چھ فٹ کا انسان کیسے نازک کے باہوں۔ میں آ سکتا تھا.....

وہ لمس کو پہچان گیا تھا رات کی چاندنی میں اُسکا لمس محسوس کر کے وُہ خود سے ضبط خو گیا تھا.. جبکہ وُہ اُسکی پیٹھ سے سے ٹکائے رونے لگی تھی......

"محسین معاف کر دیں خدا کہ واسطہ ہے آپکو معاف کردیں مجھے 😭😭 ہے تحاشہ روتے ہوئے بولی آنسوؤں سے اُسکے بليان کو تر کر گئی تھی...

"اتنی معافی پر خُدا بھی اپنے بندے کو معاف کر دیتا ہے لیکن آپ کیوں اتنے سنگ دل ہو رہے ہیں ؟ وُہ اُس پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے بولی جبکہ وہ بس سیدھا کھڑا رہا تھا نہ کچھ بولا نہ کچھ ریاکٹ کیا بس خاموش رہا تھا.....

وہ ھٹی تھی اور مایوسی سے بولتے ہوئے جانے لگی " آپکو میری زندگی سے مجھ سے میرے سائے سے اُلجھن ہے نہ ؟؟ تو ٹھیک ہے محسین میں جا رہی ہوں ہو سکے اس گناہ گار کو معاف کر دیجئے گا.." وُہ پلٹی اور جانے کے لیے اپنے قدم بڑھا دیے جب محسین نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو اپنی طرف کھینچا تھا اور جیسے ہی اُسنے اُسکی گردن پر اپنی تھوڑی رکھی وُہ اُسکے لمس سے کانپ گئی .....

بالوں کو کیچر سے آزاد کرتے ہوئے اُسنے اُسکے بالوں کو کھول دیا اور گردن سے ہٹا کر اُسکے کانوں میں بہت ہی بھاری مغرور آواز میں بولا "مسز آفرا محسین!!! مجھ سے اتنی جلدی چھٹکارا نہیں پا سکتی تُم جب تک کہ میں خود تمہیں نہ چھوڑنا چاہوں تمنے مجھے محبّت کرنے پر مجبور کیا تو خود ہی تمنے نفرت کرنا مجھے سیکھایا ہے حالانکہ میری نفرت اتنی شدید نہیں ہے جتنی میری محبّت ہے تُم معافی چاہتی ہو نہ ؟؟ تو ٹھیک ہے میں معافی۔دے دوں گا اُسنے سرگوشی کرتے اُسکی کان کو اپنے دانتوں میں دبا کر زور دار کاٹا تھا جس سے آفرہ کی چیخ بلند ہوتی کہ مقابل نے اُسکے منہ پر ہاتھ رکھا اور اُسکی چیخ کے گلا گھونٹا تھا اور اُسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں صرف اور صرف خوف دکھ رہا تھا......

آفی کی آنکھ سے آنسوں نکل کر اُسکی ہاتھ کی پست پر گرا اور محسین نے ایک دم اسکو اس طرح جھٹکا دیا کہ وہ ٹریس کی دیوار سے جا لگی تھی...

وہ جھٹکے سے اُسکی طرف بڑھا اور دیوار پر ہاتھ رکھ کر اُسکے چہرے سے چہرا مس کرتے ہوئے چبا کر بولا... "کیا تم برداشت کر پاؤ گی میں تمہاری اجازت کے بغیر تمہیں وُہ کروں جو تمہارا باپ میری بہن کے ساتھ کرنا چاہتا تھا... اُسکی بات میں چھپے ہوئے معائنوں کو سمجھ کر آفره کی آنکھیں خوف سے اُبل آئی تھی اور اس وقت اسکو اپنے باپ سے بہت نفرت ہو رہی تھی جو شخص اُسکی عزت کا محافظ قرار دیا گیا تھا آج وہی شخص اُس سے اُسکی عزت چھننے کی چاہ رکھتا تھا.......

"م محسین ا آپ ک کک کیا بب بول رہے ہیں ؟ ڈرتے ڈرتے اُسنے اُسکی آنکھوں جھناکا جو اسکو بہت گور سے سلگتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا.... " مسز جو تمہیں سمجھ آ رہی ہے اور میں جو بول رہا ہوں وہی بولا ہے .." اُسنے اَپنا چہرا آفی کے چہرے کے نزدیک تر کرتے کہا تھا.... 

دھیرے دھیرے وُہ اُسکے کافی نزدیک ہو گیا تھا.. رات کے سائے میں اُس نازک لڑکی کا وجود کانپ رہا تھا لیکن چاہنے کے باوجود بھی وُہ اس شخص کے آگے کچھ نہیں بول پائی تھی جیسے ہی وہ اُسکے کافی نزدیک ہوا ایک دم سے دیوار پر زور دار مکّا مارتے ہوئے وُہ جھٹکے سے اُس سے الگ ہوا اور گرّایا 

"لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا آفيرہ سعد احمد !! نہیں کر سکتا .... پتہ ہے کیوں ؟ کیونکہ مجھ میں ابھی انسانیت باقی ہے میں تمہارے باپ کی طرح انسانیت سے عاری شیطان نہیں ہوں

" میں عورتوں کی عزت کا جنازہ نہیں نکالتا بلکہ اُنکا محافظ بن کر اُنکی حفاظت کرنا جانتا ہوں..

اس بیچ وُہ بس اسکو روتے ہوئے دیکھتی رہی تھی جب وہ بول کے خاموش ہوا تو اُسنے ایک دم سے محسین کے گلے لگ گئی تھی روتے ہوئے گڑ گڑائی .." م محسین ایک موقع دو میں وعدہ کرتی ہوں اگر مجھے آپی نے معاف نہیں کیا تو میں آپکی زندگی سے بہت دور چلی جاؤں گی لیکن بسس ایک موقع دی دو .." آس بھری نظروں سے اُسکے سینے سے لگی روتے ہوئے بولی 

"ٹھیک ہے صرف ایک موقع اگر اگر آج میری بہن کو ہوش آتا ہے تو میں تمہیں معاف کر دوں گا اور اپنی زندگی میں شامل کر لوں گا لیکن اگر آج کی رات گزر کر کل کا سورج طلوع ہوا تو کل کی شام میری اور تمہاری آخری شام ہوگی نہ میں تمہیں زندہ چھوڑوں گا اور نہیں خود کو .... غصّے سے کہتے ہوئے وُہ وہاں سے جانے لگا تھا کہ آفی کا موبائل وائبرٹ ہوا تھا..... 

آفيره کے بجائے محسین۔ نے فون اٹھایا جہاں پر فلیش ہو رہا تھا "سمعان بھائی ."

"شام !!! بڑ بڑاتے ہوئے کال اٹھائی اور بولا " السّلام وعلیکم ! سب خیریت تو ہے نہ ؟ گھبرا کر اُسنے جلدی سے پوچھا تھا دل تھا کہ ڈوبتا جا رہا تھا ...

"دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا گیا تھا محسین کے تنے ہوئے ایکسپریشن ڈھیلے پڑے تھے اور جلدی سے بولا "میں آ رہا ہوں .. یہ بول کر اُسنے آفی کی طرف دیکھا جو اُلجھن بھری نظروں سے اسکو دیکھ رہی تھی....

اور ایک نظر اسکو دیکھتے وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ پیچھے افی بسس اسکو دیکھتی رہ گئی تھی..

............................💖💖💖💖💖💖

پوری فیملی سمعان کے اپارٹمنٹ میں موجود جیری کے ہوش آنے کہ انتظار کر رہی تھی ۔

امتیاز صاحب روبینہ بیگم رحمان صاحب حلیمہ اسماء شایان سارہ محسین افرہ ریحام فرحت بیگم اقبال چودھری عرہا بیگم عامر کو کہ تین سال بعد باہر نکلا تھا عمائمہ اور باقی کے سب افراد وہاں پر موجود اُسکے ہوش میں آنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے... 

تین گھنٹے ملسلسل انتظار کرنے کے بعد آخر وُہ وقت آ ہی گیا تھا جب اسکو ہوش آیا تھا آنکھیں کھلتے ہی پہلی نظر اُسکی اپنی ماں پر پڑی جو بہت زیادہ رو رہی تھی.. ماں کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ جیری تڑپ اٹھی تھی اُسنے اٹھنا چاہا تو امتیاز صاحب نے منا کر دیا سب بہت خوش تھے جبکہ ریحام تو اسکو دیکھ کر اپنی برسوں پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا تھا...... 

سب پر سے نظر ہوتی جیسے ہی نظر سمعان تک گئی مانو ٹھہر گئی تھی بڑھی ہوئی سیو ڈھیلا ڈھالا سہ ٹراوزر بليان بالوں کو بے ترتیب سے ڈالا ہوا تھا وُہ اتنی سردی میں بھی جیکٹ سے بے نیاز اسکو دیکھ رہا تھا..... 

اُسکی آنکھیں جب سمعان احمد کی آنکھوں سے ٹکرائی تو اسکو سمعان کی آنکھوں خود کے لئے بے پناہ محبّت دکھائی دی شرم سے اُسنے پلکیں جھکا لی وُہ بیٹھنا چاہتی تھی جیسے ہی اُسنے اٹھنا چاہا اُسکی ایک دم چیخ بلند ہو گئی "آہ ہ ہ ہ !! ایک دم سے ریحام اور سمعان دونوں بیقرار سے اُسکی طرف بڑھے لیکن ریحام سمعان کو دیکھ کر اپنی جگہ تھم گیا تھا اور اسکو دیکھ فرحت بیگم نے اپنے شہزادے کی قسمت پر بس مایوس ہو کر رہ گئی تھی .....

سمعان نے آگے بڑھ کر اسکو سہارا دے کر اسکو بٹھایا اور اُسکے کمر کے پیچھے تکیوں کا سہارا دیا اور خود وہی بیٹھ گیا تھا.. وُہ سب باتیں کرنے لگے تھے آپس میں اور وُہ اُنکی باتوں کو خاموشی سے انجوئے کر رہی تھی سب بےحد خوش تھے ....

سمعان نے اُسکی چادر کو درست کرتے ہوئے چادر کے نیچے اپنا ہاتھ کیا اور سبکی نظروں سے بچا کر جیری کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر دی ...

جیری جو سب کی باتوں میں محو تھی سمعان کے لمس پر خود میں سمٹی .. اور اُسکی طرف دیکھا جو سامنے دیکھ رہا تھا یا پھر اسکو شو کروا رہا تھا یہ وُہ اندازہ نہیں لگا پائی تھی....

پھر سمعان نے اُسکے ہاتھ کی ہتھیلی کو سیدھا کیا تھا اور اس پر لکھنا شروع کیا انگلیوں کے ذریعے..

جیری اُسکی اس کارروائی سے پسینہ پسینہ ہو گئی تھی اتنی سردی کے باعث بھی اُسکی ہتھیلی پسینے گیلی ہی گئی تھی جبکہ سمعان اُس کے اس طرح خود میں سمٹتا دیکھ لطف اندوز ہوا...

"آ آپ کک کیا کر رہے ہیں ؟ اپنے ہاتھ کو اُسکی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کر تے آہستہ سے اُسنے کہا تھا جبکہ سمعان سامنے دیکھتے اُسکے ہی انداز میں بولا....

"کیا کر رہا ہوں میں کچھ بھی تو نہیں " انجان بنتے ہوئے بولا ..." چھوڑیئے میرا ہاتھ" حیرانی اور غصے سے اُسنے ایک بار پھر مزاحمت کی تھی ۔۔

"مسز !! زور مت لگاؤ اچھے سے جانتی ہو مجھے تم سو ریلیکس میں کچھ نہیں کر رہا.. نہ جانے وہ اسکو کیا جاتانا چاہ رہا تھا... 

اُسنے جیری کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور لکھنا شروع کیا

پہلے تو انگلش میں بڑے لفظوں میں اُسنے ' آئی ' لکھا تھا..... پھر ' لو ' اور اُسکے بعد ' یو ' یہ لکھ کر اُسنے جیری کے ہاتھ کی انگلیوں میں خود کی انگلیاں گھسا کر اپنے سینے پر کرنی چاہی تھی کہ جیری نے اپنا ہاتھ واپس چھین لیا تھا.... اور سمعان بس اسکو دیکھتا رہا تھا......

" ماما افی کہاں ہے ؟ نظروں کو دوڑاتے اُسنے پوچھا تو محسین نے بے اختیار دیکھا تھا... 

"بیٹا یہی پر ہوگی !! اسماء بیگم نے بتایا "پھر وہ مجھ سے ملی کیوں نہیں ؟ مایوسی سے اُسنے پوچھا....

"محسین جاؤ بلا کر لاؤ .." اسماء بیگم نے کہا تو محسین اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر آ گیا تھا.. اسکو دیکھتے وُہ لان میں آیا تو دیکھا آفیرا لان میں بیٹھی رو رہی تھی... اسکو دیکھ محسین کا دل کٹ کر رہ گیا تھا....

"تمہیں جیری بلا رہی ہے ؟ اچٹتی سی نگاہ دل کر اُسنے کہا تھا اور وہاں سے چلا آیا تھا.... افی نے چہرے کو صاف کیا اور دوپٹہ ٹھیک کرتی اندر جیری کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی....

جب افی نے کمرے میں قدم رکھا تو وہاں صرف جیری تھی کیونکہ سب گھر والے اب لاؤنج میں موجود تھے... وہ جیری کے سامنے جا کے ایک مجرم کی طرح کھڑی ہو گئی تھی جیری نے اپنے سے چھوٹی بہن کو دیکھا جو سرتاپا بدل چکی تھی

گرین سلوار قمیض پر سفید دوپٹہ اوڑھے وُہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی.. " وہاں کیوں کھڑی ہو یہاں پر آؤ .! روبوٹ کی طرح جیری کے بلانے پر وُہ بیڈ کے قریب چلی آئی اور ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی 

"آپی س سوری م مجھے معاف ک کر دیں پلز ! ہاتھوں کو جوڑتے ہوئے وُہ گڑ گڑا ئی تھی "ارے پاگل کیسی معافی ؟ نہیں آپی میں آپکی گناہ گار ہوں آپ مجھے معاف کر دیں۔۔۔ ! ایک بار پھر وہ روئی تھی

"اٹس اوکے میری جان اب بہن بہن سے معافی مانگے یہ تو غلط بات ہے نہ چلو میں ٹھیک ہوں اور آپکی کوئی غلطی نہیں دیر آئے درست آئے یہ میرے لیے کافی ہے اُسنے اسکو گلے لگا کر کہا تھا اور افی کے مانو تین سال بعد آج ایک سکون اُسکے وجود کو بخشا گیا تھا جب دل سے معافی کے منتظر انسان کو معافی مل جاتی ہے تو اُسکے وجود کو خود بخود سکون مل جاتا ہے۔ 

......................💖💖💖💖

تین مہینے بعد»» 

عمائمہ اور عامر کی شایان اور سارہ کی آج رخصتی تھی جبکہ محسین کا آج ولیمہ تھا شادی کی تاریخ اُس دن ہی رکھ دی گئی تھی جب جیری کو ہوش آیا تھا 

اور آج اُن تینوں کے لیے ایک کمبائن فنکشن کا ارنجمنٹ کیا ہوا تھا.. جو کہ رات میں تھا وُہ سب گاؤں آ گئے تھے حویلی کو دلہن کی طرح سجایا ہوا تھا ہر طرف شور شرابہ ہر طرف خوشی کا ماحول تھا ابھی فلہال سبھی ینگ پارٹی لان میں بیٹھے گوسیپ کر رہے تھے کیونکہ سب کی تیاری مکمّل جو تھی جب ایک ملازم آیا ......

"چھوٹی بی بی جان !! آپکو صاحب اندر بلا رہے ہے" اُس ملازم نے جیرینس کہا تھا .. حیرت سے اُسنے ملازم کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ کون سے صاحب ؟ 

"شایان محسین رمنہ مومنہ سارہ عمائمہ ان سب نے بھی ملازم کو گھور کر دیکھا..... " کوں سے صاحب کی بات کر رہے ہو ابراہیم ؟ محسین نے اسکو دیکھ کر پوچھا تھا......

"چھوٹے سائے وُہ ابھی ابھی سمعان صاحب واپس آئے ہے تو وہ بی بی جی کو کمرے میں بلا رہے ہیں ۔ ملازم نے بتایا تھا جبکہ جیری بولی سمعان کے نام پر " ابراہیم آپ جائے اپنے سائے سے بولے کہ میں نہیں آ رہی " یہ بولتے وُہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی تھی اور اندر کی طرف بڑھ گئی تھی.....

ملازم نے یہ پیغام جا کر جب سمعان کو دیا تو اسکو غصّہ تو بہت آیا تھا لیکن تحمّل سے بولا " ٹھیک ہے آپ جاؤ دو کپ کافی میرے کمرے میں بھیج دو" ملازم سر ہلاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا اور سمعان اپنے کمرے سی نکل کر سامنے والے کمرے میں پہنچ گیا تھا کیونکہ جسٹ اُسکے روم۔ کےسامنے ہی جیری۔ کا بھی کمرہ تھا اور ان دونوں کی دوبارہ۔ سے شادی ہے تو وہ دونوں شادی تک الگ الگ کمروں رہ رہ تھے....

سارہ عمائمہ تو کمرے جبکہ آفرہ اور جیری وُہ دونوں۔ ایک کمرے میں تھے.... وہ غصے سے دندناتی جیسے ہی کمرے میں آئی کسی نے اُسکا بازو پکڑ اپنی طرف کھینچا اور دیوار سے لگا کر اُسکے لبوں پر ہتھیلی رکھ دی وہ اس جھٹکے لیے تیار نہیں تھی تو وہ بھی کھینچی چلی آئی تھی اب آنکھیں بند کیے وُہ اپنی دھڑکنوں کو سنبھالنے کے کوشش میں تھی ..................

...........................💖💖💖💖💖

آج کا ایپی بہت چھوٹا ہے 😓😓😓 کسی وجہ سے ایپی بڑا نہیں لکھ پائی سو آپ سب جلدی سے پڑھ کر بتاؤ کیسا لگا ایپی مجھے انتظار رہے گا


   0
0 Comments